EN हिंदी
دل میں شعلہ تھا سو آنکھوں میں نمی بنتا گیا | شیح شیری
dil mein shola tha so aankhon mein nami banta gaya

غزل

دل میں شعلہ تھا سو آنکھوں میں نمی بنتا گیا

شہپر رسول

;

دل میں شعلہ تھا سو آنکھوں میں نمی بنتا گیا
درد کا بے نام جگنو روشنی بنتا گیا

ایک آنسو اجنبیت کا ندی بنتا گیا
ایک لمحہ تھا تکلف کا صدی بنتا گیا

کیا لبالب روز و شب تھے اور کیا وحشی تھا میں
زندگی سے دور ہو کر آدمی بنتا گیا

کب جنوں میں کھنچ گئی پیروں سے ارض اعتدال
اور اک یوں ہی سا جذبہ عاشقی بنتا گیا

رفتہ رفتہ تیرگی نے دشت جاں سر کر لیا
روشنی کا ہر فسانہ ان کہی بنتا گیا

زندگی نے کیسے رازوں کی پٹاری کھول دی
آگہی کا ہر تیقن گمرہی بنتا گیا

شہر کا چہرہ سمجھ کر دیکھتے تھے سب اسے
اور وہ خود سے بھی شہپرؔ اجنبی بنتا گیا