دل میں شعلہ تھا سو آنکھوں میں نمی بنتا گیا
درد کا بے نام جگنو روشنی بنتا گیا
ایک آنسو اجنبیت کا ندی بنتا گیا
ایک لمحہ تھا تکلف کا صدی بنتا گیا
کیا لبالب روز و شب تھے اور کیا وحشی تھا میں
زندگی سے دور ہو کر آدمی بنتا گیا
کب جنوں میں کھنچ گئی پیروں سے ارض اعتدال
اور اک یوں ہی سا جذبہ عاشقی بنتا گیا
رفتہ رفتہ تیرگی نے دشت جاں سر کر لیا
روشنی کا ہر فسانہ ان کہی بنتا گیا
زندگی نے کیسے رازوں کی پٹاری کھول دی
آگہی کا ہر تیقن گمرہی بنتا گیا
شہر کا چہرہ سمجھ کر دیکھتے تھے سب اسے
اور وہ خود سے بھی شہپرؔ اجنبی بنتا گیا
غزل
دل میں شعلہ تھا سو آنکھوں میں نمی بنتا گیا
شہپر رسول