دل میں شگفتہ گل بھی ہیں روشن چراغ بھی
کیا چیز ہیں یہ سوز محبت کے داغ بھی
ٹوٹا تھا ایک جام سفالی نہ جانے کیوں
رندوں نے توڑ ڈالے منقش ایاغ بھی
تدبیر چارہ سازیٔ دل سوچنے کے بعد
رہتا ہے بد گماں مرے دل سے دماغ بھی
ہم وہ نہیں جو موت کے پردوں میں کھو گئے
ہم نے تو زندگی کا لگایا سراغ بھی
ہم نے تو راز عشق چھپایا مگر فریدؔ
چارہ گروں نے ڈھونڈھ لیے دل کے داغ بھی
غزل
دل میں شگفتہ گل بھی ہیں روشن چراغ بھی
فرید عشرتی