دل میں شفقت نہ رہے آنکھ کا پانی نہ رہے
عہد میں تیرے کوئی چیز پرانی نہ رہے
رسم ہجرت کو بہ انداز دگر زندہ رکھ
اتنے ویراں ہوں مگر شوق مکانی نہ رہے
سلسلہ بند ہو یاروں کی ملاقاتوں کا
صبح رنگیں نہ رہے شام سہانی نہ رہے
ہو سکے لوح دل و جاں سے مٹا اس کے نقوش
جانے والے کی یہاں کوئی نشانی نہ رہے
تو ندی نالے کو ہر طور بہم رکھ پانی
وہ تو چاہے گا کہ دریا میں روانی نہ رہے
بات جو دل میں ہے کھل کر اسے کہہ دے شاہیںؔ
کیا خبر کل کو یہ آشفتہ بیانی نہ رہے
غزل
دل میں شفقت نہ رہے آنکھ کا پانی نہ رہے
جاوید شاہین