دل میں رکھے ہوئے آنکھوں میں بسائے ہوئے شخص
پاس سے دیکھ مجھے دور سے آئے ہوئے شخص
جانتا ہوں یہ ملاقات ذرا دیر کی ہے
تپتی راہوں میں خنک چھاؤں کھلائے ہوئے شخص
تیرے لب پر ترے رخسار کی لو پڑتی ہے
تاب خورشید سے مہتاب جلائے ہوئے شخص
یہ تو دنیا بھی نہیں ہے کہ کنارا کر لے
تو کہاں جائے گا اے دل کے ستائے ہوئے شخص
دھوپ رنجش کی طرح پھیل رہی ہے مجھ میں
کیا کہوں تجھ سے مرے سائے میں آئے ہوئے شخص
منہدم ہوتے ہوئے وقت سے پوچھو تو سعودؔ
کیا ہوئے وہ ترے ہاتھوں کے بنائے ہوئے شخص
غزل
دل میں رکھے ہوئے آنکھوں میں بسائے ہوئے شخص
سعود عثمانی