دل میں میرے ہر گھڑی دریائے غم لبریز ہے
بات جو منہ سے نکلتی ہے وہ درد آمیز ہے
ضبط کرتا ہوں تو بڑھتا ہے مرا سوز دروں
اشک سے بھی اپنے ڈرتا ہوں کہ طوفاں خیز ہے
پہلے ان آنکھوں سے سیل اشک ہوتا تھا رواں
اب وفور غم سے میری چشم تر خوں ریز ہے
آرزو تک ہو گئی دل کے لئے بار گراں
ناتوانی کے سبب ارماں بھی حسرت خیز ہے
ہے عبث سامان فرحت غمزدہ دل کے لئے
میرے لب کو خود تبسم سے بڑا پرہیز ہے
دن گئے تفریح کے جب سے ہوا دل غم کدہ
کیا غرض ہم کو اگر دنیا طرب انگیز ہے
اس زمیں پر کر رہا ہے طے مسافت ہر نفس
وہ مبارک ہے قدم جس کا سفر میں تیز ہے
قلب حافظؔ تا دم آخر نہ پائے گا سکوں
جملہ سامان طرب انگیز وحشت خیز ہے

غزل
دل میں میرے ہر گھڑی دریائے غم لبریز ہے
محمد ولایت اللہ