دل میں کچھ سوز تمنا کے نشاں ملتے ہیں
اس اندھیرے میں اجالے کے سماں ملتے ہیں
آج بھی رنگ بیاباں کے تپش زاروں میں
لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے نشاں ملتے ہیں
ہاں اسی منزل صد کیف و طرب کی جانب
قافلے آج بھی عاشق کے رواں ملتے ہیں
اے گرے ہم سفرو اس کو تو منزل نہ کہو
آندھیاں اٹھتی ہیں طوفان یہاں ملتے ہیں
ان کے ہر وعدۂ الطاف کی رنگینی میں
کتنے نا دیدہ ستم ہائے گراں ملتے ہیں
اس کی محفل میں وہ بہکے ہوئے سیمیں نغمیں
اب تو کچھ دن سے بہ انداز فغاں ملتے ہیں
یوں گوارہ ہے یہ خوں بار افق کا منظر
اس کے پرتو میں ہمیں تازہ جہاں ملتے ہیں
غزل
دل میں کچھ سوز تمنا کے نشاں ملتے ہیں
معین احسن جذبی