EN हिंदी
دل میں جھانکا تو بہت زخم پرانے نکلے | شیح شیری
dil mein jhanka to bahut zaKHm purane nikle

غزل

دل میں جھانکا تو بہت زخم پرانے نکلے

رضا امروہوی

;

دل میں جھانکا تو بہت زخم پرانے نکلے
اک فسانے سے کئی اور فسانے نکلے

خواب تو خواب تھے آنکھوں میں کہاں رک جاتے
وہ دبے پاؤں انہیں بھی تو چرانے نکلے

دیکھنا یہ ہے ٹھہرتا ہے کہاں جوش جنوں
سرپھرے شہر نگاراں کو جلانے نکلے

اپنے گھر سنگ ملامت کی ہوئی ہے بارش
بے گناہی کی سند ہم جو دکھانے نکلے

کاروبار رسن و دار کی تشہیر ہوئی
سرفروشی کے یہاں کتنے بہانے نکلے

جن کتابوں پہ سلیقے سے جمی وقت کی گرد
ان کتابوں ہی میں یادوں کے خزانے نکلے

وہ ستم کیش بہر حال ستم کیش رہے
درد سویا بھی نہیں تھا کہ جگانے نکلے

ہر طرف شہر میں ویرانی کا عالم ہے رضاؔ
زندگی کون کہاں تجھ کو سجانے نکلے