EN हिंदी
دل میں جب تیری لگن رقص کیا کرتی تھی | شیح شیری
dil mein jab teri lagan raqs kiya karti thi

غزل

دل میں جب تیری لگن رقص کیا کرتی تھی

محمود شام

;

دل میں جب تیری لگن رقص کیا کرتی تھی
میری ہر سانس میں خوشبو سی بسا کرتی تھی

اب تو محفل سے بھی ہوتا نہیں کچھ غم کا علاج
پہلے تنہائی بھی دکھ بانٹ لیا کرتی تھی

اب جو رقصا ہے کئی رنگ بھرے چہروں میں
یہی مٹی کبھی بے کار اڑا کرتی تھی

رنگ کے جال ہی ملتے ہیں جدھر جاتا ہوں
روشنی یوں نہ مجھے تنگ کیا کرتی تھی

اب مجھے چاندنی کچھ بھی تو نہیں کہتی ہے
کبھی یہ تیرے سندیسے بھی دیا کرتی تھی

کس قدر پیار سے یہ پیڑ بلاتے تھے مجھے
کس طرح چھاؤں ترا ذکر کیا کرتی تھی