دل میں اک شام سی اتارتی ہے
خامشی اب مجھے پکارتی ہے
کیسے ویران ساحلوں کی ہوا
ریت پر زندگی گزارتی ہے
تجھ سے ہم دور رہ نہیں سکتے
کوئی بے چینی ہم کو مارتی ہے
کھیلتی ہے مرے دکھوں کے ساتھ
زندگی کس قدر شرارتی ہے
ہے محبت تو بس محبت ہے
جیت جاتی ہے اب یا ہارتی ہے
روز اک نقش کو ابھارتی ہے
ان کہی روپ کتنے دھارتی ہے
کاروباری ہیں اس کی باتیں بھی
اس کی مسکان بھی تجارتی ہے
غزل
دل میں اک شام سی اتارتی ہے
فرحت عباس شاہ