دل میں ہر وقت یاس رہتی ہے
اب طبیعت اداس رہتی ہے
ان سے ملنے کی گو نہیں صورت
ان سے ملنے کی آس رہتی ہے
موت سے کچھ نہیں خطر مجھ کو
وہ تو ہر وقت پاس رہتی ہے
آب حیواں جسے بجھا نہ سکے
زندگی کو وہ پیاس رہتی ہے
دل تو جلووں سے بد حواس ہی تھا
آنکھ بھی بد حواس رہتی ہے
ان کی صورت عجب ہے شعبدہ باز
دور رہ کر بھی پاس رہتی ہے
دل کہاں عرشؔ اب تو پہلو میں
ایک تصویر یاس رہتی ہے
غزل
دل میں ہر وقت یاس رہتی ہے
عرش ملسیانی