EN हिंदी
دل میں ہر چند ہے خیال اس کا | شیح شیری
dil mein har-chand hai KHayal us ka

غزل

دل میں ہر چند ہے خیال اس کا

جوشش عظیم آبادی

;

دل میں ہر چند ہے خیال اس کا
نظر آتا نہیں جمال اس کا

وہ جو تھی بے خودی سو ہے موجود
ہجر سے کم نہیں وصال اس کا

ہو چکا ہے جگر پسند مژہ
دل کو مانگے ہے خط و خال اس کا

شیخ اگر سامنے ہو مستوں کے
نظر آ جائے سب کمال اس کا

ہم پڑے اک زوال میں ؔجوشش
دیکھ کر حسن بے زوال اس کا