دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت
جمع اس گھر میں ہیں مہمان بہت
آئے تو دست جنوں زوروں پر
چاک کرنے کو گریبان بہت
میری جانب سے دل اس کا نہ پھرا
دشمنوں نے تو بھرے کان بہت
لے کے اک دل غم کونین دیا
آپ کے مجھ پہ ہیں احسان بہت
ترک الفت کا ہمیں کو ہے غم
وہ بھی ہیں دل میں پشیمان بہت
دل کے ویرانے کا ہے عالم کچھ اور
ہم نے دیکھے ہیں بیابان بہت
خاک ہونے کو ہزاروں حسرت
خون ہونے کو ہیں ارمان بہت
صدمۂ ہجر اٹھانا مشکل
جان دینا تو ہے آسان بہت
رشک جن پر ہے فرشتوں کو حفیظؔ
ایسے دنیا میں ہیں انسان بہت
غزل
دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت
حفیظ جونپوری