دل میں بے نام سی خوشی ہے ابھی
زندگی میرے کام کی ہے ابھی
میں بھی تجھ سے بچھڑ کے سرگرداں
تیری آنکھوں میں بھی نمی ہے ابھی
دل کی سنسان رہ گزاروں پر
میں نے اک چیخ سی سنی ہے ابھی
میں نے مانا بہت اندھیرا ہے
پھر بھی تھوڑی سی روشنی ہے ابھی
اپنے آنسو امیرؔ کیوں پونچھوں
ان چراغوں میں روشنی ہے ابھی
غزل
دل میں بے نام سی خوشی ہے ابھی
امیر قزلباش