EN हिंदी
دل میں آتے ہی خوشی ساتھ ہی اک غم آیا | شیح شیری
dil mein aate hi KHushi sath hi ek gham aaya

غزل

دل میں آتے ہی خوشی ساتھ ہی اک غم آیا

ارشد علی خان قلق

;

دل میں آتے ہی خوشی ساتھ ہی اک غم آیا
عید آئی تو میں سمجھا کہ محرم آیا

خون دل ہو گیا شاید دم گریہ جو آج
عوض اشک لہو آنکھوں سے پیہم آیا

نازکی کہتے ہیں اس کو کہ ہزاروں بل کھاتے
تا کمر یار کا جب گیسوئے پر خم آیا

دل میں ہے جلوہ کناں چاہ زنخداں کا خیال
عین کعبے میں نظر چشمۂ زمزم آیا

پھر بہار آئے گی پھر داغ جنوں چمکیں گے
پھر سوئے برج حمل نیر اعظم آیا

پاک دامن ہے تو ایسا کہ پئے صدق کلام
شان عصمت میں تری سورۂ مریم آیا

دی دہائی تری رحمت کی گنہ گاروں نے
لب واعظ پہ جوں ہی نام جہنم آیا

دشت غربت میں بجز بیکسی و یاس و الم
قبر مجنوں پہ نہ کوئی پئے ماتم آیا

شعر گوئی ہے وہ شے جن کا صلہ دینے کو
خواب فردوسی خوش فکر میں رستم آیا

پھر گیا آنکھوں میں اس کان کے موتی کا خیال
گوش گل تک نہ کوئی قطرۂ شبنم آیا

جیتے جی ہی کے تھے سب یار پس مرگ قلقؔ
گور پر کوئی نہ غم خوار نہ ہمدم آیا