EN हिंदी
دل مر چکا ہے اب نہ مسیحا بنا کرو | شیح شیری
dil mar chuka hai ab na masiha bana karo

غزل

دل مر چکا ہے اب نہ مسیحا بنا کرو

ظہیر کاشمیری

;

دل مر چکا ہے اب نہ مسیحا بنا کرو
یا ہنس پڑو یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرو

اب حسن کے مزاج سے واقف ہوا ہوں میں
اک بھول تھی جو تم سے کہا تھا وفا کرو

دل بھی صنم پرست نظر بھی صنم پرست
کس کی ادا سہو تو کسے رہنما کرو

جس سے ہجوم غیر میں ہوتی ہیں چشمکیں
اس اجنبی نگاہ سے بھی آشنا کرو

اک سوز اک دھواں ہے پس پردۂ جمال
تم لاکھ شمع بزم رقیباں بنا کرو

قائم اسی کی ذات سے ہے ربط زندگی
اے دوست احترام دل مبتلا کرو

تقریب عشق ہے یہ دم واپسیں نہیں
تم جاؤ اپنا فرض تغافل ادا کرو

وہ بزم سے نکال کے کہتے ہیں اے ظہیرؔ
جاؤ مگر قریب رگ جاں رہا کرو