EN हिंदी
دل مانگے ہے موسم پھر امیدوں کا | شیح شیری
dil mange hai mausam phir ummidon ka

غزل

دل مانگے ہے موسم پھر امیدوں کا

ثمینہ راجہ

;

دل مانگے ہے موسم پھر امیدوں کا
چار طرف سنگیت رچا ہو جھرنوں کا

ہم نے بھی تکلیف اٹھائی ہے آخر
آپ برا کیوں مانیں سچی باتوں کا

جانے اب کیوں دل کا پنچھی ہے گم سم
جب پیڑوں پر شور مچا ہے چڑیوں کا

رات گئے تک راہ وہ میری دیکھے گا
مجھ پر ہے اک خوف سا طاری راہوں کا

میرے ماتھے پر کچھ لمحے اترے تھے
اب بھی یاد ہے ذائقہ اس کے ہونٹوں کا

پورے چاند کی رات مگر خاموشی ہے
موسم تو ہے بھیگی بھیگی باتوں کا