دل لذت نگاہ کرم پا کے رہ گیا
کتنا حسین خواب نظر آ کے رہ گیا
لب تک شکایت غم دل لا کے رہ گیا
ان کی ندامتوں پہ میں شرما کے رہ گیا
میرے دل تباہ کا عالم نہ پوچھئے
اک پھول تھا جو کھلتے ہی مرجھا کے رہ گیا
منزل سے دور رہرو منزل تھا مطمئن
منزل قریب آئی تو گھبرا کے رہ گیا
شوریدگیٔ نالۂ گستاخ کیا کہوں
اس قلب نازنیں کو بھی تڑپا کے رہ گیا
بے گانہ وار جب وہ گزرتے چلے گئے
کچھ بے قرار دل مجھے سمجھا کے رہ گیا
ان کے حضور لب تو مکرر نہ کھل سکے
روداد غم نگاہ سے دہرا کے رہ گیا
یوں ختم داستان محبت ہوئی شکیلؔ
جیسے کوئی حسین غزل گا کے رہ گیا
غزل
دل لذت نگاہ کرم پا کے رہ گیا
شکیل بدایونی