EN हिंदी
دل لرز رہا ہے کیوں اس کے خط کو پا کر بھی | شیح شیری
dil laraz raha hai kyun is ke KHat ko pa kar bhi

غزل

دل لرز رہا ہے کیوں اس کے خط کو پا کر بھی

مختار شمیم

;

دل لرز رہا ہے کیوں اس کے خط کو پا کر بھی
حرف ہنس ہے ہیں کیوں رنگ رخ اڑا کر بھی

تجھ سے دور رہ کر بھی دل گرفتہ رہتے تھے
ایک عجیب الجھن ہے تیرے پاس آ کر بھی

چہرے ہیں کہتے ہیں آئینے پشیماں ہیں
ہے عجیب حیرانی بزم دل سجا کر بھی

لفظ لفظ پھیلا تھا نقطہ نقطہ سمٹا ہوں
کس قدر پشیماں ہوں داستاں سنا کر بھی

اے شمیمؔ بہتر ہے دور ہی رہو سب سے
سنگ میل کی صورت فاصلے مٹا کر بھی