دل لگے ہجر میں کیوں کر میرا
دل ترا سا نہیں پتھر میرا
یوں تو روٹھے ہیں مگر لوگوں سے
پوچھتے حال ہیں اکثر میرا
راہ نکلے گی نہ کب تک کوئی
تری دیوار ہے اور سر میرا
کہتے ہیں آہ کی دیکھیں تاثیر
نہ ہوا وصل میسر میرا
یہ تو کہہ کون سی تدبیر نہ کی
نہ ہوا تو ہی ستم گر میرا
کیا سنوں اے دل بدظن تیری
دوست ہے تو وہ مقرر میرا
لطف رنجش کے دکھاتا تم کو
کیا کہوں بس نہیں دل پر میرا
انہیں ملنا نہیں مجھ سے منظور
کس کی تقصیر مقدر میرا
پوچھنا کیا ہے چلیں جائیں آپ
زور چلتا نہیں تم پر میرا
غیر کا حال ہے کہنا منظور
کہتے ہیں ذکر ملا کر میرا
رشک دشمن کا گلا کرتا ہوں
ہے قصور اس میں سراسر میرا
خواہش دل کہیں بر آئے نظامؔ
دل کئی دن سے ہے مضطر میرا
غزل
دل لگے ہجر میں کیوں کر میرا
نظام رامپوری