دل لگانے کی جگہ عالم ایجاد نہیں
خواب آنکھوں نے بہت دیکھے مگر یاد نہیں
آج اسیروں میں وہ ہنگامۂ فریاد نہیں
شاید اب کوئی گلستاں کا سبق یاد نہیں
سر شوریدہ سلامت ہے مگر کیا کہئے
دست فرہاد نہیں تیشۂ فرہاد نہیں
توبہ بھی بھول گئے عشق میں وہ مار پڑی
ایسے اوسان گئے ہیں کہ خدا یاد نہیں
دشمن و دوست سے آباد ہیں دونوں پہلو
دل سلامت ہے تو گھر عشق کا برباد نہیں
فکر امروز نہ اندیشۂ فردا کی خلش
زندگی اس کی جسے موت کا دن یاد نہیں
نکہت گل کی ہے رفتار ہوا کی پابند
روح قالب سے نکلنے پہ بھی آزاد نہیں
زندہ ہیں مردہ پرستوں میں ابھی تک غالبؔ
مگر استاد یگانہؔ سا اب استاد نہیں
غزل
دل لگانے کی جگہ عالم ایجاد نہیں
یگانہ چنگیزی