EN हिंदी
دل لگا کر پڑھائی کرتے رہے | شیح شیری
dil laga kar paDhai karte rahe

غزل

دل لگا کر پڑھائی کرتے رہے

ظہیرؔ رحمتی

;

دل لگا کر پڑھائی کرتے رہے
عمر بھر امتحاں سے ڈرتے رہے

ایک ادنیٰ ثواب کی خاطر
جانے کتنے گناہ کرتے رہے

جان پر کون دم نہیں دیتا
صورت ایسی تھی لوگ مرتے رہے

کوئی بھی راہ پر نہیں آیا
حادثے ہی یہاں گزرتے رہے

حیرتیں حیرتوں پہ وارفتہ
جھیل میں ڈوبتے ابھرتے رہے

آخرش ہم بھی اتنا سوکھ گئے
لوگ دریا کو پار کرتے رہے

کیا نہ تھا اس جہان میں آخر
ہم بھی کیا ہی تلاش کرتے رہے

آخر اعزاز اس نے بخش دیا
کیسا خود کو ذلیل کرتے رہے