EN हिंदी
دل کیا کسی کی بات سے اندر سے کٹ گیا | شیح شیری
dil kya kisi ki baat se andar se kaT gaya

غزل

دل کیا کسی کی بات سے اندر سے کٹ گیا

عارف انصاری

;

دل کیا کسی کی بات سے اندر سے کٹ گیا
تتلی کا رابطہ کیوں گل تر سے کٹ گیا

دو چار گام کا ہی سفر رہ گیا تھا بس
اس وقت میرا قافلہ رہبر سے کٹ گیا

موسم کے سرد و گرم کا جل پر اثر نہ تھا
وہ سنگ دل بھی شعر سخنور سے کٹ گیا

صف میں مخالفوں کی میں سمجھا تھا غیر ہیں
دیکھا جو اپنے لوگوں کو اندر سے کٹ گیا

خیرات خوب کرتا ہے جب لوگ ساتھ ہوں
تنہا ہے وہ ابھی تو گداگر سے کٹ گیا

جب تک عروج تھا تو زمانے میں دھوم تھی
جوں ہی زوال آیا وہ منظر سے کٹ گیا