EN हिंदी
دل کوئی آئینہ نہیں ٹوٹ کے رہ گیا تو پھر | شیح شیری
dil koi aaina nahin TuT ke rah gaya to phir

غزل

دل کوئی آئینہ نہیں ٹوٹ کے رہ گیا تو پھر

ادریس بابر

;

دل کوئی آئینہ نہیں ٹوٹ کے رہ گیا تو پھر
ٹھیک ہی کہہ رہے ہو تم ٹھیک نہ ہو سکا تو پھر

اس کو بھلانے لگ گئے اس میں زمانے لگ گئے
بعد میں یاد آ گیا وہ کوئی اور تھا تو پھر

پھول ہے جو کتاب میں اصل ہے کہ خواب ہے
اس نے اس اضطراب میں کچھ نہ پڑھا لکھا تو پھر

راستے اجنبی سے تھے پیڑ تھے سو کسی کے تھے
یہ کوئی سوچتا تو کیوں اور کوئی سوچتا تو پھر

اب اسے خواب جان کے سو رہو لمبی تان کے
یاد نہ آ سکا تو کیا یاد بھی آ گیا تو پھر