دل کو اجڑے ہوئے بیتے ہیں زمانے کتنے
کلک تقدیر نے لوٹے ہیں خزانے کتنے
بھول جاتا ہوں مگر سچ تو یہی ہے برسوں
تم سے وابستہ رہے خواب سہانے کتنے
دل دکھاتی ہی رہی گردش ایام مگر
ہم بھی مصروف رہے خود بھی نہ جانے کتنے
ایک ہم اور یہ دشنام طرازی توبہ
اپنے اطراف رہے آئنہ خانے کتنے
اک نظر دیکھ لیا تھا کسی گل کی جانب
نکتہ چینوں نے تراشے ہیں فسانے کتنے
گر نہیں وصل تو پھر بادہ و ساغر ہی سہی
دل نے ڈھونڈے ہیں دھڑکنے کے بہانے کتنے
عمر رفتہ کو جو آواز کبھی دی ہم نے
کھل گئے زخم کئی، باب پرانے کتنے
غمزہ و رمز میں سلمانؔ تفاوت رکھتے
اور آئیں گے تمہیں ناز دکھانے کتنے

غزل
دل کو اجڑے ہوئے بیتے ہیں زمانے کتنے
سلمان انصاری