دل کو شائستۂ احساس تمنا نہ کریں
آپ اس انداز نظر سے مجھے دیکھا نہ کریں
یک بہ یک لطف و عنایت کا ارادا نہ کریں
آپ یوں اپنی جفاؤں کو تماشا نہ کریں
ان کو یہ فکر ہے اب ترک تعلق کر کے
کہ ہم اب پرسش احوال کریں یا نہ کریں
ہاں مرے حال پہ ہنستے ہیں زمانے والے
آپ تو واقف حالات ہیں ایسا نہ کریں
ان کی دزدیدہ نگاہی کا تقاضا ہے کہ اب
ہم کسی اور کو کیا خود کو بھی دیکھا نہ کریں
وہ تعلق ہے ترے غم سے کہ اللہ اللہ
ہم کو حاصل ہو خوشی بھی تو گوارا نہ کریں
اس میں پوشیدہ ہے پندار محبت کی شکست
آپ مجھ سے بھی مرے حال کو پوچھا نہ کریں
نہ رہا تیری محبت سے تعلق نہ سہی
نسبت غم سے بھی کیا خود کو پکارا نہ کریں
میں کہ خود اپنی وفاؤں پہ خجل ہوں اخترؔ
وہ تو لیکن ستم و جور سے توبا نہ کریں
غزل
دل کو شائستۂ احساس تمنا نہ کریں
علیم اختر