دل کو قرار ملتا ہے اکثر چبھن کے بعد
نیندیں سہانی آتی ہیں دن کی تھکن کے بعد
بے کار سی جوانی ہے جس پر ستم نہ ہو
شیریں ہوا شجر پہ ثمر بھی تپن کے بعد
آنگن تھا جب تلک یہ نہ دل کو لبھا سکا
یادیں وطن کی آئی ہیں ترک وطن کے بعد
دامن بھگو کے بیٹھیں ہیں خوشیوں کی راہ میں
اکثر بہار آتی ہے رت میں گھٹن کے بعد
گزرو گے جب بھی صحرا سے پاؤ گے تم چمن
جیسے نگار دشت ہے اکثر چمن کے بعد
غزل
دل کو قرار ملتا ہے اکثر چبھن کے بعد
تاثیر صدیقی