دل کو کیا یار کے پیکان لئے بیٹھے ہیں
صاحب خانہ کو مہمان لئے بیٹھے ہیں
شور کیونکر نہ لب زخم جگر سے اٹھے
سنتے ہیں پھر وہ نمک دان لئے بیٹھے ہیں
دم لبوں پر ہے یہاں شوق شہادت میرا
گھر میں وہ خنجر بران لئے بیٹھے ہیں
سوگ نے ان کے ہزاروں کو کیا سودائی
وہ ابھی زلف پریشاں لئے بیٹھے ہیں
دل پر داغ سے بہلاتے ہیں جی کو اس بن
ہم یہ پہلو میں گلستان لئے بیٹھے ہیں
اٹھتے ہی پہلو سے اس پردہ نشیں کے ہم بھی
چشم پر گوشۂ دامان لئے بیٹھے ہیں
کل تو کعبہ کو چلے حضرت تنویرؔ تھے لو
آج مے نوشی کا سامان لئے بیٹھے ہیں
غزل
دل کو کیا یار کے پیکان لئے بیٹھے ہیں
تنویر دہلوی