EN हिंदी
دل کو کیا یار کے پیکان لئے بیٹھے ہیں | شیح شیری
dil ko kya yar ke paikan liye baiThe hain

غزل

دل کو کیا یار کے پیکان لئے بیٹھے ہیں

تنویر دہلوی

;

دل کو کیا یار کے پیکان لئے بیٹھے ہیں
صاحب خانہ کو مہمان لئے بیٹھے ہیں

شور کیونکر نہ لب زخم جگر سے اٹھے
سنتے ہیں پھر وہ نمک دان لئے بیٹھے ہیں

دم لبوں پر ہے یہاں شوق شہادت میرا
گھر میں وہ خنجر بران لئے بیٹھے ہیں

سوگ نے ان کے ہزاروں کو کیا سودائی
وہ ابھی زلف پریشاں لئے بیٹھے ہیں

دل پر داغ سے بہلاتے ہیں جی کو اس بن
ہم یہ پہلو میں گلستان لئے بیٹھے ہیں

اٹھتے ہی پہلو سے اس پردہ نشیں کے ہم بھی
چشم پر گوشۂ دامان لئے بیٹھے ہیں

کل تو کعبہ کو چلے حضرت تنویرؔ تھے لو
آج مے نوشی کا سامان لئے بیٹھے ہیں