دل کو ہر سرمئی رت میں یہی سمجھاتے ہیں
ایسے موسم کئی آتے ہیں گزر جاتے ہیں
حد سے بڑھ جاتی ہے جب تلخیٔ امروز تو پھر
ہم کسی اور زمانے میں نکل جاتے ہیں
رات بھر نیند میں چلتے ہیں بھٹکتے ہیں خیال
صبح ہوتی ہے تو تھک ہار کے گھر آتے ہیں
کیسے گھبرائے سے پھرتے ہیں مرے خال غزال
زندگانی کی کڑی دھوپ میں سنولاتے ہیں
پھول سے لوگ جو خوشبو کے سفر پر نکلے
دیکھتے دیکھتے کس طرح سے مرجھاتے ہیں
چھوڑیئے جو بھی ہوا ٹھیک ہوا بیت گیا
آئیے راکھ سے کچھ خواب اٹھا لاتے ہیں
غزل
دل کو ہر سرمئی رت میں یہی سمجھاتے ہیں
عذرا نقوی