EN हिंदी
دل کو ہر عیش سے بیگانہ بنا کر چھوڑا | شیح شیری
dil ko har aish se begana bana kar chhoDa

غزل

دل کو ہر عیش سے بیگانہ بنا کر چھوڑا

محمد منشاء الرحمن خاں منشاء

;

دل کو ہر عیش سے بیگانہ بنا کر چھوڑا
تم نے آخر اسے دیوانہ بنا کر چھوڑا

دو نگاہوں کا تصادم تو کوئی بات نہ تھی
اس کا بھی لوگوں نے افسانہ بنا کر چھوڑا

صحن گلشن میں طرب خیز بہار آتے ہی
ہم نے ہر پھول کو پیمانہ بنا کر چھوڑا

سیکڑوں طرح کے بت اس میں اکٹھا کر کے
کعبۂ دل کو بھی بت خانہ بنا کر چھوڑا

عالم‌ شوق میں پرواز کے متوالوں کو
عزم بے باک نے پروانہ بنا کر چھوڑا

دل کا تھوڑا سا لہو اس میں ملا کر ہم نے
اشک‌ بے رنگ کو دردانہ بنا کر چھوڑا

منشاؔ اس دور میں ہستی کی گرانباری نے
اچھے اچھوں کو بھی دیوانہ بنا کر چھوڑا