دل کو ہر عیش سے بیگانہ بنا کر چھوڑا
تم نے آخر اسے دیوانہ بنا کر چھوڑا
دو نگاہوں کا تصادم تو کوئی بات نہ تھی
اس کا بھی لوگوں نے افسانہ بنا کر چھوڑا
صحن گلشن میں طرب خیز بہار آتے ہی
ہم نے ہر پھول کو پیمانہ بنا کر چھوڑا
سیکڑوں طرح کے بت اس میں اکٹھا کر کے
کعبۂ دل کو بھی بت خانہ بنا کر چھوڑا
عالم شوق میں پرواز کے متوالوں کو
عزم بے باک نے پروانہ بنا کر چھوڑا
دل کا تھوڑا سا لہو اس میں ملا کر ہم نے
اشک بے رنگ کو دردانہ بنا کر چھوڑا
منشاؔ اس دور میں ہستی کی گرانباری نے
اچھے اچھوں کو بھی دیوانہ بنا کر چھوڑا

غزل
دل کو ہر عیش سے بیگانہ بنا کر چھوڑا
محمد منشاء الرحمن خاں منشاء