دل کو دل سے کام رہے گا
دونوں طرف آرام رہے گا
صبح کا تارا پوچھ رہا ہے
کب تک دور جام رہے گا
بدنامی سے کیوں ڈرتے ہو
باقی کس کا نام رہے گا
زلف پریشاں ہی اچھی ہے
عالم زیر دام رہے گا
مفتی سے جھگڑا نہ عدمؔ کر
اس سے اکثر کام رہے گا
غزل
دل کو دل سے کام رہے گا
عبد الحمید عدم