EN हिंदी
دل کو بچا کے لائے تھے سارے جہاں سے ہم | شیح شیری
dil ko bacha ke lae the sare jahan se hum

غزل

دل کو بچا کے لائے تھے سارے جہاں سے ہم

جامی ردولوی

;

دل کو بچا کے لائے تھے سارے جہاں سے ہم
آخر میں چوٹ کھا گئے اک مہرباں سے ہم

بے فکریوں کا راج ہو رسہ کشی کے ساتھ
وہ مدرسہ حیات کا لائیں کہاں سے ہم

اب گرد بھی ہماری نہ پائیں گے قافلے
آگے نکل گئے ہیں بہت کارواں سے ہم

اپنا شمار ہی نہیں پھولوں میں باغ کے
ایسے میں کیا امید کریں باغباں سے ہم

جامیؔ وطن میں اپنے مسافر تھی زندگی
لندن میں بن بلائے ہوئے میہماں سے ہم