دل کو بہ نام عشق سجانا پڑا ہمیں
پھر اک فریب دل میں بسانا پڑا ہمیں
یہ کس کا حال کس کو سنانا پڑا ہمیں
اور دل کا حال دل سے چھپانا پڑا ہمیں
جل کر بھی تیرے نام کی خوشبو بکھیر دے
پھولوں میں ایسی آگ لگانا پڑا ہمیں
دامن یہ خار سے نہیں پھولوں سے تار ہے
جانے یہ کیسا قرض چکانا پڑا ہمیں
جب سے خوشی صلیب محبت پہ چڑھ گئی
ہنسنا بھی اب ادھار میں لانا پڑا ہمیں
کھلتے ہیں روز کیا یہ محبت کے میکدے
یہ آزما کے دیکھنے جانا پڑا ہمیں
اک آرزو کے واسطے کیا کیا نہیں کیا
احمدؔ نثارؔ دل کو جلانا پڑا ہمیں
غزل
دل کو بہ نام عشق سجانا پڑا ہمیں
احمد نثار