دل کو آئے کہ نگاہوں کو یقیں آ جائے
کسی عنواں تو کوئی میرے قریں آ جائے
بکھرے رہنے دو سر راہ نشان کف پا
جانے کس دم کوئی آوارہ جبیں آ جائے
سنتے جاؤ مرا بے ربط فسانہ شاید
انہی باتوں میں کوئی بات حسیں آ جائے
اور پھر اس کے سوا سحر محبت کیا ہے؟
یک بیک جیسے کوئی دل کے قریں آ جائے
جام کیا چیز ہے مے خانہ اڑاؤ یارو!
جانے کس دم لب ساقی پہ ''نہیں'' آ جائے
وہ تری یاد کا پرتو ہو کہ ہو سایۂ زلف
چین آ جائے طبیعت کو کہیں آ جائے
غزل
دل کو آئے کہ نگاہوں کو یقیں آ جائے
صوفی تبسم