EN हिंदी
دل کیے تسخیر بخشا فیض روحانی مجھے | شیح شیری
dil kiye tasKHir baKHsha faiz-e-ruhani mujhe

غزل

دل کیے تسخیر بخشا فیض روحانی مجھے

چکبست برج نرائن

;

دل کیے تسخیر بخشا فیض روحانی مجھے
حب قومی ہو گیا نقش سلیمانی مجھے

منزل عبرت ہے دنیا اہل دنیا شاد ہیں
ایسی دلجمعی سے ہوتی ہے پریشانی مجھے

جانچتا ہوں وسعت دل حملۂ غم کے لیے
امتحاں ہے رنج و حرماں کی فراوانی مجھے

حق پرستی کی جو میں نے بت پرستی چھوڑ کر
برہمن کہنے لگے الحاد کا بانی مجھے

کلفت دنیا مٹے بھی تو سخی کے فیض سے
ہاتھ دھونے کو ملے بہتا ہوا پانی مجھے

خود پرستی مٹ گئی قدر محبت بڑھ گئی
ماتم حباب ہے تعلیم روحانی مجھے

قوم کا غم مول لے کر دل کا یہ عالم ہوا
یاد بھی آتی نہیں اپنی پریشانی مجھے

ذرہ ذرہ ہے مرے کشمیر کا مہماں نواز
راہ میں پتھر کے ٹکڑوں نے دیا پانی مجھے

لکھنؤ میں پھر ہوئی آراستہ بزم سخن
بعد مدت پھر ہوا ذوق غزل خوانی مجھے