دل کس کی تیغ ناز سے لذت چشیدہ ہے
ہر زخم شوق سے لب حسرت گزیدہ ہے
اس گرم اضطراب سے دل جل گیا خدا
پہلو میں میرے دل ہے کہ برق طپیدہ ہے
چوسا دہان زخم نے اس کو ہے اس طرح
پیکان تیر یار زبان مکیدہ ہے
ناصح جنوں کی بخیہ گری کی ہوس نہیں
ہر تار جیب اب تو گریباں دریدہ ہے
غنچہ کی طرح خاک رکھیں زر کو باندھ کر
جوں بولے کل یہاں سے تو جانا جریدہ ہے
کچھ آج زلزلہ سا زمیں کو ہے گور میں
تسکینؔ بے قرار مگر آرمیدہ ہے

غزل
دل کس کی تیغ ناز سے لذت چشیدہ ہے
میر تسکینؔ دہلوی