EN हिंदी
دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پریشاں ہوتا ہے | شیح شیری
dil kis ke tasawwur mein jaane raaton ko pareshan hota hai

غزل

دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پریشاں ہوتا ہے

ابن انشا

;

دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پریشاں ہوتا ہے
یہ حسن طلب کی بات نہیں ہوتا ہے مری جاں ہوتا ہے

ہم تیری سکھائی منطق سے اپنے کو تو سمجھا لیتے ہیں
اک خار کھٹکتا رہتا ہے سینے میں جو پنہاں ہوتا ہے

پھر ان کی گلی میں پہنچے گا پھر سہو کا سجدہ کر لے گا
اس دل پہ بھروسا کون کرے ہر روز مسلماں ہوتا ہے

وہ درد کہ اس نے چھین لیا وہ درد کہ اس کی بخشش تھا
تنہائی کی راتوں میں انشاؔ اب بھی مرا مہماں ہوتا ہے