دل کی راہوں سے دبے پاؤں گزرنے والا
چھوڑ جائے گا کوئی زخم نہ بھرنے والا
اب وہ صحرائے جنوں خاک اڑانے سے رہا
اب وہ دریائے محبت نہیں بھرنے والا
ضبط غم کر لیا یہ بھی تو نہ سوچا میں نے
ایک نشتر سا ہے اب دل میں اترنے والا
ڈوب کر پار اترنا ہے چڑھے دریا سے
ایک دریا ہی تو ہے وقت گزرنے والا
جانے اب کون سی منزل میں ہے انساں کا سفر
یہ جنم لینے لگا ہے کہ ہے مرنے والا
بے سبب تو نہیں سہمے ہوئے ذروں کا سکوت
کیفؔ یہ خاک کا تودہ ہے بکھرنے والا

غزل
دل کی راہوں سے دبے پاؤں گزرنے والا
اندر موہن مہتا کیف