EN हिंदी
دل کی مٹی چپکے چپکے روتی ہے | شیح شیری
dil ki miTTi chupke chupke roti hai

غزل

دل کی مٹی چپکے چپکے روتی ہے

غفران امجد

;

دل کی مٹی چپکے چپکے روتی ہے
یار کہیں برسات غموں کی ہوتی ہے

بے چینی میں ڈوبے جبہ اور دستار
فاقہ مستی چادر تان کے سوتی ہے

پیار محبت رشتے ناطے پیر فقیر
دیکھ غریبی کیا کیا دولت کھوتی ہے

تیرا چہرہ دن کا دریا پار کرے
رات کی ساری ہلچل تجھ سے ہوتی ہے

جس کو ماجھی سمجھا اس کی ملاحی
ساحل ساحل میری ناؤ ڈبوتی ہے

دھرتی امبر ندیا نالے کھائی پہاڑ
دو مصرعوں میں کیا کیا رنگ سموتی ہے

اس سے امجدؔ باتیں کرنا کھیل ہے کیا
وہ تو لہجے کی اک سوئی چبھوتی ہے