دل کی خواہش بڑھتے بڑھتے طوفاں ہوتی جاتی ہے
زر کی چاہت اب لوگوں کا ایماں ہوتی جاتی ہے
پیار محبت ہمدردی کے رشتے تھے انسانوں میں
دل والوں کو اب یہ دنیا زنداں ہوتی جاتی ہے
مرگھٹ کا سا سناٹا ہے گھر کوچے بازاروں میں
دل کی بستی رفتہ رفتہ ویراں ہوتی جاتی ہے
انسانوں کے خوں کے پیاسے اور نہیں خود انساں ہیں
عقل بچاری دیکھ کے دنیا حیراں ہوتی جاتی ہے
جھوٹے وعدے سنتے سنتے سپنے چکنا چور ہوئے
مایوسی بے زاری دل میں مہماں ہوتی جاتی ہے
غزل
دل کی خواہش بڑھتے بڑھتے طوفاں ہوتی جاتی ہے
احمد شاہد خاں