دل کی کہانیوں کو نیا موڑ کیوں دیا
رشتوں کے ٹوٹے شیشے کو پھر جوڑ کیوں دیا
دہلیز پر جلا کے سر شام اک چراغ
دروازہ تم نے گھر کا کھلا چھوڑ کیوں دیا
گلدان میں سجے ہوئے نقلی گلاب پر
اک بد حواس تتلی نے دم توڑ کیوں دیا
طوفاں سے لڑ رہا تھا وہ ساحل کے واسطے
ساحل ملا تو ناؤ کا رخ موڑ کیوں دیا
یہ دیکھیے وہ خوش ہے بہت مجھ کو چھوڑ کر
مت پوچھئے کہ اس نے مجھے چھوڑ کیوں دیا
غزل
دل کی کہانیوں کو نیا موڑ کیوں دیا
شکیل شمسی