دل کی کایا غم نے وہ پلٹی کہ تجھ سا بن گیا
درد میں دل ڈوب کر قطرے سے دریا بن گیا
ان کے آغوش مشیت میں ہے ناکامی مری
کام کچھ اس طرح بگڑا ہے کہ گویا بن گیا
دل کی رت ایسی تو یاد یار نے بدلی نہ تھی
یہ چمن اجڑا ہی اس ڈھب سے کہ صحرا بن گیا
نقش موہوم حیات افسانہ در افسانہ تھا
جب یہ نقش ابھرا تو اک حرف تمنا بن گیا
لو مبارک لذت غم بھی ہے اب تو ناگوار
دل محبت میں جو بننا چاہیئے تھا بن گیا
جلوۂ کثرت خود اپنا شوق بے اندازہ تھا
محفل لیلیٰ مری نظروں میں لیلیٰ بن گیا
میری محرومی بھی رسوا ہے کہ فانیؔ حال دل
ان کے کانوں تک نہ پہنچا اور فسانا بن گیا
غزل
دل کی کایا غم نے وہ پلٹی کہ تجھ سا بن گیا
فانی بدایونی