دل کی اک حرف و حکایات ہے یہ بھی نہ سہی
گر مری بات میں کچھ بات ہے یہ بھی نہ سہی
عید کو بھی وہ نہیں ملتے ہیں مجھ سے نہ ملیں
اک برس دن کی ملاقات ہے یہ بھی نہ سہی
دل میں جو کچھ ہے تمہارے نہیں پنہاں مجھ سے
ظاہری لطف و مدارات ہے یہ بھی نہ سہی
زندگی ہجر میں بھی یوں ہی گزر جائے گی
وصل کی ایک ہی گر رات ہے یہ بھی نہ سہی
میری تربت پہ لگاتے نہیں ٹھوکر نہ لگاؤ
یہ ہی بس ان کی کرامات ہے یہ بھی نہ سہی
کاٹ سکتے ہیں گلا خود بھی نہ کیجے ہمیں قتل
آپ کے ہاتھ میں اک بات ہے یہ بھی نہ سہی
قتل قاصد پہ کمر باندھی ہے شعلہؔ اس نے
خط کتابت کی ملاقات ہے یہ بھی نہ سہی
غزل
دل کی اک حرف و حکایات ہے یہ بھی نہ سہی
شعلہؔ علی گڑھ