EN हिंदी
دل کی گرہیں کہاں وہ کھولتا ہے | شیح شیری
dil ki girhen kahan wo kholta hai

غزل

دل کی گرہیں کہاں وہ کھولتا ہے

اکبر حمیدی

;

دل کی گرہیں کہاں وہ کھولتا ہے
چاہتوں میں بھی جھوٹ بولتا ہے

سنگ ریزوں کو اپنے ہاتھوں سے
موتیوں کی طرح وہ رولتا ہے

کیسا میزان عدل ہے اس کا
پھول کانٹوں کے ساتھ تولتا ہے

ایسا وہ ڈپلومیٹ ہے اکبرؔ
زہر امرت کے ساتھ گھولتا ہے