دل کی گرہیں کہاں وہ کھولتا ہے
چاہتوں میں بھی جھوٹ بولتا ہے
سنگ ریزوں کو اپنے ہاتھوں سے
موتیوں کی طرح وہ رولتا ہے
کیسا میزان عدل ہے اس کا
پھول کانٹوں کے ساتھ تولتا ہے
ایسا وہ ڈپلومیٹ ہے اکبرؔ
زہر امرت کے ساتھ گھولتا ہے
غزل
دل کی گرہیں کہاں وہ کھولتا ہے
اکبر حمیدی