دل کی دنیا ہے مصیبت سے بھری رہتی ہے
پھر بھی ہر شاخ تمنا کی ہری رہتی ہے
جانے کب آ کے وہ دروازے پہ دستک دے دے
زندگی موت کی آہٹ سے ڈری رہتی ہے
خواب میں بھی نہیں دیکھا کبھی چہرہ اس کا
دل کے آئینے میں سنتے ہیں پری رہتی ہے
میں سکندر ہوں نہ صوفی نہ قلندر یارو
پھر بھی روشن مری آشفتہ سری رہتی ہے
ایک ہی پل میں پلٹتی ہے لکیروں جیسی
جیسے ہر سانس ہتھیلی پہ دھری رہتی ہے

غزل
دل کی دنیا ہے مصیبت سے بھری رہتی ہے
خواجہ جاوید اختر