EN हिंदी
دل کی دنیا ہے مصیبت سے بھری رہتی ہے | شیح شیری
dil ki duniya hai musibat se bhari rahti hai

غزل

دل کی دنیا ہے مصیبت سے بھری رہتی ہے

خواجہ جاوید اختر

;

دل کی دنیا ہے مصیبت سے بھری رہتی ہے
پھر بھی ہر شاخ تمنا کی ہری رہتی ہے

جانے کب آ کے وہ دروازے پہ دستک دے دے
زندگی موت کی آہٹ سے ڈری رہتی ہے

خواب میں بھی نہیں دیکھا کبھی چہرہ اس کا
دل کے آئینے میں سنتے ہیں پری رہتی ہے

میں سکندر ہوں نہ صوفی نہ قلندر یارو
پھر بھی روشن مری آشفتہ سری رہتی ہے

ایک ہی پل میں پلٹتی ہے لکیروں جیسی
جیسے ہر سانس ہتھیلی پہ دھری رہتی ہے