EN हिंदी
دل کی دل کو خبر نہیں ملتی | شیح شیری
dil ki dil ko KHabar nahin milti

غزل

دل کی دل کو خبر نہیں ملتی

آنند نرائن ملا

;

دل کی دل کو خبر نہیں ملتی
جب نظر سے نظر نہیں ملتی

سحر آئی ہے دن کی دھوپ لیے
اب نسیم سحر نہیں ملتی

دل معصوم کی وہ پہلی چوٹ
دوستوں سے نظر نہیں ملتی

جتنے لب اتنے اس کے افسانے
خبر معتبر نہیں ملتی

ہے مقام جنوں سے ہوش کی رہ
سب کو یہ رہ گزر نہیں ملتی

نہیں ملاؔ پہ اس فغاں کا اثر
جس میں آہ بشر نہیں ملتی