دل کی دل کو خبر نہیں ملتی
جب نظر سے نظر نہیں ملتی
سحر آئی ہے دن کی دھوپ لیے
اب نسیم سحر نہیں ملتی
دل معصوم کی وہ پہلی چوٹ
دوستوں سے نظر نہیں ملتی
جتنے لب اتنے اس کے افسانے
خبر معتبر نہیں ملتی
ہے مقام جنوں سے ہوش کی رہ
سب کو یہ رہ گزر نہیں ملتی
نہیں ملاؔ پہ اس فغاں کا اثر
جس میں آہ بشر نہیں ملتی

غزل
دل کی دل کو خبر نہیں ملتی
آنند نرائن ملا