EN हिंदी
دل کی دھڑکنوں سے اک داستاں بنانا ہے | شیح شیری
dil ki dhaDkanon se ek dastan banana hai

غزل

دل کی دھڑکنوں سے اک داستاں بنانا ہے

پرویز شاہدی

;

دل کی دھڑکنوں سے اک داستاں بنانا ہے
آپ کی نگاہوں کو ہم زباں بنانا ہے

ماہ و خور اگانے ہیں کہکشاں بنانا ہے
اے زمیں تجھی کو اب آسماں بنانا ہے

گل فروش تھا مالی ہو گیا چمن خالی
آج پتے پتے کو باغباں بنانا ہے

اپنے سرخ ہونٹوں کی مسکراہٹیں دے دو
بجلیوں کی یورش میں آشیاں بنانا ہے

باندھ کر کفن سر سے یوں کھڑا ہوں مقتل میں
جیسے سرفروشوں کا کارواں بنانا ہے

میری زندگی میں تم اپنی دل کشی بھر دو
وقت جیسے ظالم کو مہرباں بنانا ہے

آج ان کی آنکھوں سے جھانکتی ہیں تلواریں
دل کی آرزؤں کو سخت جاں بنانا ہے