دل کی چوری میں جو چشم سرمہ سا پکڑی گئی
وہ تھا چین زلف میں یہ بے خطا پکڑی گئی
صبح کوئے یار میں باد صبا پکڑی گئی
یعنی غیبت میں گلوں کی مبتلا پکڑی گئی
دل چڑھا مشکل سے طاق ابروئے خم دار پر
سو جگہ رستہ میں جب زلف رسا پکڑی گئی
جان کر آنکھیں چرائیں تو نے ہم سے بزم میں
تیری چوری دیکھ لی کیا بد نما پکڑی گئی
ہے اسی میں قلب محزوں شرطیہ کہتا ہوں میں
کھول مٹھی تیری چوری مہ لقا پکڑی گئی
مست ہو کر اس کی خوشبو سے گرا تھا بچ گیا
جب سنبھلنے کو وہ زلف مشک سا پکڑی گئی
ہر طرف صحن چمن میں کہتی پھرتی ہے نسیم
گل سے ہنستی کھلکھلاتی موتیا پکڑی گئی
اپنے ہاتھوں پر لئے پھرتے ہیں وہ ہر دم حلف
آڑ قسموں کی تو مجھ سے بارہا پکڑی گئی
رخ سے گل کو تھا تعلق زلف سے سنبل کو میل
ایک جا گانٹھا اسے یہ ایک جا پکڑی گئی
یار ہے خنجر بکف اور جاں نثاروں کا ہجوم
ہائے یہ کس جرم میں خلق خدا پکڑی گئی
آپ ہی کا آسرا ہے آپ کیجے گا مدد
حشر میں پرویںؔ اگر یا مصطفیٰ پکڑی گئی
غزل
دل کی چوری میں جو چشم سرمہ سا پکڑی گئی
پروین ام مشتاق