دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں
نہ گئیں آہ و زاریاں نہ گئیں
دن کو چھوٹا نہ انتظار ان کا
شب کو اختر شماریاں نہ گئیں
نہ چھپا گریۂ شب فرقت
رخ سے اشکوں کی دھاریاں نہ گئیں
آ گئے وہ بھی وعدے پر لیکن
آہ کی شعلہ باریاں نہ گئیں
تنگ آ کر وہ چل دیے گھر کو
جب مری اشک باریاں نہ گئیں
اس نے خط پھاڑ کر کہا یہ رشیدؔ
تیری مضموں نگاریاں نہ گئیں
غزل
دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں
رشید رامپوری