دل کی بستی پہ کسی درد کا سایہ بھی نہیں
ایسا ویرانی کا موسم کبھی آیا بھی نہیں
ہم کسی اور ہی عالم میں رہا کرتے ہیں
اہل دنیا نے جہاں آکے ستایا بھی نہیں
ہم پہ اس عالم تازہ میں گزرتی کیا ہے
تم نے پوچھا بھی نہیں ہم نے بتایا بھی نہیں
کب سے ہوں غرق کسی جھیل کی گہرائی میں
راز ایام مگر عقل نے پایا بھی نہیں
بے زمینی کا یہ دکھ اور زمیں بھی اپنی
بے بسی ایسی کہ نکتہ یہ اٹھایا بھی نہیں
بے جہت اٹھتے ہوئے ٹھوکریں کھاتے یہ قدم
راہ بر میرا مجھے راہ پہ لایا بھی نہیں
اس نے ہمدردی کے پیماں تو بہت باندھے تھے
آ پڑی ہے تو مرا ہاتھ بٹایا بھی نہیں
دل کی دیواروں سے لپٹی ہے کسی شام کی یاد
جانے والا تو کبھی لوٹ کے آیا بھی نہیں
سرد مہری کہ جگر چھلنی کیے دیتی ہے
اس نے یوں دیکھنے میں ہاتھ چھڑایا بھی نہیں
اس سے امید وفا باندھ رکھی ہے شاہدؔ
جس نے یہ بار محبت کا اٹھایا بھی نہیں
غزل
دل کی بستی پہ کسی درد کا سایہ بھی نہیں
صدیق شاہد