دل کی آواز میں آواز ملاتے رہئے
جاگتے رہئے زمانے کو جگاتے رہئے
دولت عشق نہیں باندھ کے رکھنے کے لیے
اس خزانے کو جہاں تک ہو لٹاتے رہئے
زندگی بھی کسی محبوب سے کچھ کم تو نہیں
پیار ہے اس سے تو پھر ناز اٹھاتے رہئے
زندگی درد کی تصویر نہ بننے پائے
بولتے رہئے ذرا ہنستے ہنساتے رہئے
روٹھنا بھی ہے حسینوں کی ادا میں شامل
آپ کا کام منانا ہے مناتے رہئے
پھول بکھراتا ہوا میں تو چلا جاؤں گا
آپ کانٹے مری راہوں میں بچھاتے رہئے
بے وفائی کا زمانہ ہے مگر آپ حفیظؔ
نغمۂ مہر و وفا سب کو سناتے رہئے
غزل
دل کی آواز میں آواز ملاتے رہئے
حفیظ بنارسی